![]() |
طالبان کی کابینہ کی حلف برداری ملتوی کردی گئی ہے۔ |
طالبان نے جب اپنی عبوری کابینہ کا اعلان کیا تو مختلف حوالوں سے یہ خبریں سامنے آرہی تھی کہ طالبان کی افغان کابینہ 11 ستمبر کو ایک تقریب میں حلف اٹھائے گی۔
جب طالبان کے دوحہ قطر میں سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین اعلان کیا کہ اب کابل میں نئی افغان حکومت کی جانب سے کوئی حلف برداری کی تقریب نہیں ہو گی، تو ہر جگہ اور ہر شخص کے ذھن میں سوال اٹھنا شروع ہوگیا کہ ایسا کیوں کیا گیا؟ اس کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں۔
بی بی سی اردو، سروس نے اپنی ویب سائیٹ پر افغان صدارتی محل کے ذرائع سے بتایا ہے یہ تقریب سکیورٹی کی وجہ سے انعقاد پذیر نہیں ہورہی ۔
محل کے ذرائع کا کہنا ہے کہ انھیں طالبان کی قیادت کی طرف سے یہی بتایا گیا ہے کہ وہ معصوم افغانیوں کی زندگیوں کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔
خیال رہے کہ بیشتر طالبان ذرائع 11 ستمبر کو حلف برادری کی تقریب کے انعقاد کے فیصلے کو کنفرم کر چکے تھے لیکن باضابطہ طور پر اس کا اعلان آخری دن تک نہیں کیا گیا تھا اور غیر یقینی صورتحال برقرار رکھی گئی تھی۔
اسی بات کا حوالہ دیتے ہوئے سیاسی دفتر کے دوسرے ترجمان محمد نعیم نے بی بی سی کو بتایا کہ تقریب کے حوالے سے کوئی بات طے شدہ نہیں تھی جو ملتوی یا ختم کی گئی ہو۔
گذشتہ روز روس کی طرف سےیہ بیان سامنے آیا تھا کہ وہ طالبان کی افغان کا بینہ کی حلف برداری کی تقریب میں شریک نہیں ہونگے۔ اس سے پہلے روس کے وزیر خارجہ بھی یہ بات کہ چکے تھے کہ اگر طالبان نے افغانستان کے تمام طبقات کو حکومت میں شامل کیا تو وہ طالبان کی حلف برداری میں شرکت کے ساتھ طالبان حکومت کو بھی تسلیم کر لیں گے۔
اس سے پہلے پاکستانی وزیر خارجہ بھی تقریب حلف برداری میں شرکت کا غیر واضح جواب دے چکے تھے۔
طالبان ذرائع بظاہر تقریب نہ ہونے کی وجہ سکیورٹی کو قرار دے رہے ہیں لیکن کچھ ذرائع کہ رہے ہیں کہ تقریب میں سفارتی اور دوسرے ممالک کی شرکت نہ ہونے کی وجہ سے ملتوی کرنا پڑی۔
ابھی تک باضابطہ طور صرف روس نے تقریب میں شرکت نہ کرنے کا بیان جاری کیا تھا لیکن بی بی سی کے مطابق ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ کابینہ صرف مولویوں کو شامل کرنے اور اقوام متحدہ کی طرف سے پابندیوں کے حامل افراد کا کابینہ میں ہونا، غیرملکی سفارتکاروں کے لیے حلف برداری کی تقریب میں شرکت مشکل بنا دی تھی جبکہ خواتین اور غیر طالبان کہ کابینہ میں غیر موجودگی بھی عالمی برادری کے لیے طالبان کو تسلیم کرنے میں رکاوٹ نظر آرہی ہے۔
پہلے طالبان کی طرف سے یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ اُن کے رہبر ملا ہبت اللہ اخونزادہ جلد ہی منظر عام پر آئیں گے اور بیشتر لوگوں کو یقین تھا کہ طالبان کے رہبراور دیگر طالبان رہنما جو ابھی تک میڈیا کے سامنے نہیں آئے ہیں وہ اس حلف برداری تقریب میں ہی نظر آ جائیں گے لیکن تقریب حلف برداری کے ملتوی ہونے کے بعد اب یہ نہیں معلوم کہ وہ کب اپنے آپ کو میڈیا اور عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
وزارتوں نے کام کا آغاز کر دیا ہے۔
طالبان ذرائع کے مطابق حلف برداری کی تقریب ملتوی کرنے کے بعد ان کے رہبر ملا ہبت اللہ اخونزادہ نے تمام وزیروں اور طالبان ذمہ دران کو حکم دیا کہ وہ اپنی اپنی وزارتوں میں حاضر ہوکر کام شروع کردیں۔
طالبان کےترجمانوں کے مطابق وزارت دفاع، داخلہ، خارجہ اور کئی دیگر اہم وزارتوں میں کام کا آغاز ہو چکا ہے ۔ہفتے کو افغان صدارتی محل میں عبوری وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند نے ایک مختصر تعارفی تقریب منعقد کی اور طالبان کا پرچم لہرایا۔
طالبان کا مینیو
صدارتی محل میں لنچ پر تبصرے
افغانستان میں ہفتے کے روز صدارتی محل میں ایک مختصر تقریب میں انتہائی مخصوص مہمانوں نے شرکت کی۔
اس تقریب میں شریک مہمان ملا ہیب اللہ اخوند کے منظور شدہ تھے ۔ لنچ انتہائی سادہ تھا جس کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس پر طالبان کے کئی حمایتی سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے ہفتے کو صدارتی محل کے کھانے پر بھی بحث ہوئی کہ انتہائی سادگی سے لنچ کا اہتمام کیا گیا تھا اور فضول خرچی نہیں کی گئی۔
اس کھانے میں موجود ایک طالبان رہنما وحید اللہ ہاشمی کے مطابق کھانے میں بھنڈی، لوبیا، چاول اور لسی شامل تھی اور ملا محمد حسن اخوند نے بھی مہمانوں کے ساتھ یہی کھانا کھایا۔
اگرچہ سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں نے اس پر بھی تنقید کی کہ عام افغان کو بھوک کا سامنا ہے اور محل میں تین یا چار قسم کی ڈشز موجود تھیں۔
0 تبصرے